بلک ایس ایم ایس پورٹل اور ایپ

یہ سنہ دو ہزار چودہ کی بات ہے، مجھے لیکچرار کی نوکری کرتے ہوئے دو سال ہو چکے تھے۔ جب میں نیا نیا آیا تھا تب میں کافی پرجوش اور پرامید رہتا تھا کہ میں طلبا کی زندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی لاؤں گا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت مجھ پر آشکار ہوتی جا رہی تھی کہ پڑھائے جانے والے مواد میں طلبا کو قطعاً کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کی تعداد داخلے کے بعد پہلے ہی ماہ سے کم ہونا شروع ہو جاتی تھی اور سیشن کے آخر تک ایک تہائی طلبا بھی کلاسز میں نہیں آ رہے ہوتے تھے۔ اگر ان سے پوچھ گچھ کرو، ٹیسٹ کا اعلان کرو یا کلاس میں سوال جواب کرو تو اگلے دن ان کی تعداد اور ہی کم ہو جاتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری فرسٹریشن میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ دو ہزار چودہ میں جب ہمارے کالج کا پہلا سیشن مکمل ہوا تو نتیجہ مزید حوصلہ شکن تھا۔ ایک بھی طالبعلم کی حاضری مطلوبہ پچھتر فیصد نہیں تھی، اور بورڈ امتحان میں صرف چوبیس فیصد طلبا ہی پاس ہوئے تھے۔ یوں ہمارے کالج کا نتیجہ پورے لاہور میں نیچے سے تیسرے نمبر پر تھا۔ ساتھ ہی ساتھ ڈسپلن کے بھی مسائل جمع ہوتے جا رہے تھے۔

اتفاق سے اسی دوران ہمارے کالج میں نئے پرنسپل کا تقرر ہوا اور میں نے اپنی کچھ تجاویز ان کےسامنے رکھیں جن پر عملدرآمد کی انہوں نے اجازت دے دی۔ ان میں سب سے پہلی تجویز یہ تھی کہ کالج میں داخلے کے وقت طالبعلم کے ساتھ ساتھ والد یا سرپرست کی موجودگی لازمی قرار دے دی جائے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ داخلہ فارم پر والد یا سرپرست کا اپنا فون نمبر ضرور درج کروایا جائے۔ اکثر لڑکے یا تو غلط فون نمبر درج کر دیتے تھے اور یا جان بوجھ کر والد کی جگہ اپنا نمبر لکھا ہوتا تھا۔ داخلے کے بعد ان سے گھر والوں کا نمبر لینا یا ڈسپلن کی خلاف ورزی کی صورت میں گھر والوں کو بلانا بہت مشکل کام بن جاتا تھا۔ چنانچہ اب ہم نے داخلے کے ساتھ ہی والدین کے فون نمبرز کا ڈیٹا بیس بھی مرتب کرنا شروع کر دیا۔

دوسرا اہم کام ہم نے یہ کیا کہ ہر ماہ کے اختتام پر طلبا کی حاضری اور ماہانہ ٹیسٹ کی رپورٹ کمپیوٹرائز کرنا شروع کر دی۔ یہ ایک مشکل کام تھا لیکن جیسے تیسے ہم کسی نہ کسی طرح رپورٹ تیار کر ہی لیتے تھے۔ اگلا اہم مرحلہ اس رپورٹ کو گھر والوں تک پہنچانا تھا۔ زیادہ تر گھر والوں کا خیال یہ تھا کہ سرکاری کالج میں تو کلاسز ہوتی ہی نہیں ہیں اور بچوں کو کالج بھیجنا وقت کا ضیاع ہے۔ ایسا اس لیے تھا کہ بچے جان بوجھ کر ایسی تصویر پیش کرتے تھے۔ اگر ماہانہ رپورٹ گھر جانے لگتی تو والدین کو پتہ لگ جاتا کہ کالج میں کلاسز بھی باقاعدگی سے ہو رہی ہیں اور یہ بھی کہ ان کے برخوردار کی کارکردگی کیسی جا رہی ہے۔ قوی امکان تھا کہ اس کے بعد طلبا کی توجہ کلاسز میں پڑھائے جانے والی باتوں کی طرف خود بخود ہو جائے گی۔

اس سلسلے میں میں نے پہلے پہلے ویژوئل بیسک سکس میں اور پھر بعد میں مائیکروسافٹ ایکسل کے ویژوئل بیسک فار ایپلیکیشنز میں اینڈرائیڈ موبائل کے ذریعے میسج بھیجنے کا سسٹم بنایا۔ میرا بنایا یہ سسٹم خاطر خواہ کامیاب رہا اور اس کے بہترین نتائج نظر آنا شروع ہو گئے۔ طلبا کی کلاسز میں حاضری بڑھنے لگی یہاں تک کہ اکثریت کی حاضری پچھتر فیصد سے زیادہ ہو گئی۔ بچے ٹیسٹوں میں پرفارم کرنے لگے اور یہی پرفارمنس بورڈ کے امتحانات میں بھی نظر آنے لگی۔ یہاں تک کہ صرف تین سال کے قلیل عرصے میں ہمارے بورڈ میں پاس ہونے والے طلبا کی شرح چوبیس فیصد سے بڑھ کر ستر فیصد سے بھی زیادہ ہو گئی۔ ڈسپلن کے معاملات میں بھی بہتری آنا شروع ہو گئی چنانچہ اب طلبا کو کھینچ کھینچ کر کلاسوں میں لانے کی ضرورت ختم ہو گئی۔ کلاس سے غائب رہنے کا تصور ہی ختم ہو گیا یہاں تک کہ شہر بھر کے پرنسپلز کی میٹنگز میں ہمارے کالج کے ڈسپلن، حاضری اور رزلٹ کے چرچے ہونے لگے۔

اس سسٹم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بہت سے دوستوں نے مجھ سے یہ سسٹم لینا چاہا۔ تاہم اس وقت تک میں نے اس کو دوسروں کے استعمال کے حساب سے ترتیب نہیں دیا تھا۔ زیادہ تر آپشنز کافی پیچیدہ اور ٹیکنیکل نوعیت کی تھیں اس لئے لوگ اس کو استعمال کرنے سے کتراتے تھے۔ میری ایک عرصے سے خواہش تھی کہ میں اینڈرائیڈ پروگرامنگ خود سیکھوں اور تعلیمی اداروں کے لئے ایک آسان فہم ایس ایم ایس سسٹم بناؤں۔ کرونا لاک ڈاؤن کے باعث بالاخر اینڈرائیڈ سیکھنے کا موقع مل ہی گیا۔ صرف چار دن کی محنت سے میں نے اپنی پہلی اینڈرائیڈ ایپ کا بنیادی ڈھانچہ تیار کیا ہے جو آپ دوستوں کے لئے پیش کر رہا ہوں۔ امید ہے دوست اس کو ٹیسٹ میکر کی ہی طرح پسند کریں گے۔ استعمال کریں اور اپنی قیمتی آرا اور مشوروں سے نوازیں۔ اللہ نے چاہا تو عنقریب آپ لوگوں کے لئے ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ مینیجمنٹ سسٹم بھی پیش کروں گا جو میں گزشتہ چھے سال سے اپنے کالج میں استعمال کر رہا ہوں۔

Try our Bulk SMS App for free